اسی در سے اسی دیوار سے آگے نہیں بڑھتا
یہ کیسا پیار ہے جو پیار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری خواہشیں اظہار کی حد تک نہیں جاتیں
ہمارا حوصلہ دیدار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری زندگی میں ایک سستی سی مسلسل ہے
ہمارا خون اس رفتار سے آگے نہیں بڑھتا
کسی کے ہاتھ سے پی کر کسی کو بھول جاتے ہیں
ہمارا درد اس معیار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری زندگی لوگوں میں رہ کر بھی اکیلی ہے
ہمارا راستہ بازار سے آگے نہیں بڑھتا
عجب اک قحط ہے اس آنکھ میں تیرے حوالے سے
چھلک کر اشک بھی رخسار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری جستجو ہے ہم ترے اقرار تک پہنچیں
ہمارا خواب اک انکار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری سوچ تیری گرد پا کو چھو نہیں سکتی
ہمارا ذہن اس آزار سے آگے نہیں بڑھتا
ہماری آرزو ذیشانؔ پوری ہی نہیں ہوتی
ہمارا مسئلہ اخبار سے آگے نہیں بڑھتا
غزل
اسی در سے اسی دیوار سے آگے نہیں بڑھتا
ذیشان مہدی