اسی عاشقی میں پیہم ہوئی خانماں خرابی
دل مبتلا کی اب تک ہے وہی جنوں مآبی
رہے سوز عشق لیکن گئے ہوش پھر نہ آئیں
وہ تجلیوں سے پر ہے تری چشم کی گلابی
ہمیں تم اب اپنی محفل میں بلا کے کیا کروگے
نہ وہ جوش باریابی نہ وہ ہوش کامیابی
جو سنے تو داد ممکن ہے مگر بھلا سنے کیوں
میری بے بسی کے شکوے ترا حسن لاجوابی
مگر اتنی سادگی بھی تو بجائے خود ادا ہے
بہ خیال پردہ داری بہ جمال آفتابی
مری آرزو نگاہی نے ستم کیا سکھا کر
ترے اس شباب رنگیں کو مذاق بے حجابی
کوئی ہوشیار کیونکر اسے دلبری میں جانے
یہ نظر کہ جو بظاہر ہے شعاع نیم خوابی
نہ سہی سہاؔ کہ عالم پہ ہو آشکار ورنہ
مری خاکساریوں میں ہے شکوۂ بو ترابی
غزل
اسی عاشقی میں پیہم ہوئی خانماں خرابی
سہا مجددی