عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دل شورش ادا کی ہے
مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے
کچھ ابتدا کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے
کھلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبش رگ بہار میں موج فنا کی ہے
ہم خستگان راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کان میں ابھی بانگ درا کی ہے
ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوش آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدعا کی ہے
لطف نہان یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستم برملا کی ہے
غزل
عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
اصغر گونڈوی