عشوہ کیوں دل ربا نہیں ہوتا
غمزہ کیوں حشر زا نہیں ہوتا
آزمائیں لہو کو رنگ حنا
کھل گیا دیر پا نہیں ہوتا
جان دیتے ہو ان کے وعدوں پر
جن کا وعدہ وفا نہیں ہوتا
آئنہ اس کو دیتا ہے ترغیب
جو کوئی خود نما نہیں ہوتا
کب نہیں ہوتی فکر کس لمحہ
دوش پر تسمہ پا نہیں ہوتا
جس کی لو سے چمک اٹھی ہے مژہ
ایسا ناوک خطا نہیں ہوتا
زیب تن جامہ آئینہ پیکر
کوئی پہلو چھپا نہیں ہوتا
سنگ کہہ کر پکاریے اس کو
دل جو درد آشنا نہیں ہوتا
کھاتا ہے آدمی نظر کے فریب
دیدۂ دل جو وا نہیں ہوتا
نالہ کو دسترس نہیں نہ سہی
ہاتھ خود کیوں رسا نہیں ہوتا
غزل
عشوہ کیوں دل ربا نہیں ہوتا
سید حامد