عشق ان سب سے الگ سب سے جدا ہوتا ہے
چیخنے رونے تڑپ لینے سے کیا ہوتا ہے
یاد آتا ہے گلے مل کے ترا پچھتانا
ہر نئی عید میں یہ رنج نیا ہوتا ہے
جو بھلا کرتا ہے اللہ کے بندوں کے لئے
غیب سے اس کا بھی ہر کام بھلا ہوتا ہے
گفت و گو میں یہ نزاکت ہے کہ اللہ اللہ
ایک اک حرف بھی مشکل سے ادا ہوتا ہے
قہر ہوتا ہے حسینوں میں جو ہوتا ہے متیں
شوخ ہوتا ہے جو ان میں وہ بلا ہوتا ہے
جینے دیتی ہے کسے پیار کی صورت کافر
دوست تو دوست ہے دشمن بھی فدا ہوتا ہے
تذکرے حسن کے سن حسن کا دل دادہ نہ بن
بعض باتوں کے تو سننے میں مزا ہوتا ہے
مہ جبیں عید میں انگشت نما کیوں نہ رہیں
عید کا چاند ہی انگشت نما ہوتا ہے
پھبتیاں غیر پہ کسنے کو ہے موجود صفیؔ
اور اس پہ کبھی ہنسئے تو خفا ہوتا ہے

غزل
عشق ان سب سے الگ سب سے جدا ہوتا ہے
صفی اورنگ آبادی