عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے
سب طلسم سرشت آدم ہے
اب یہ مایوسیوں کا عالم ہے
فرط راحت بھی شدت غم ہے
آج اس کور دل میں زمانے میں
کون تیری ادا کا محرم ہے
کیوں کرے وہ مسرتوں کی تلاش
جس کی فطرت ہی خوگر غم ہے
اک قیامت ہے تیرا ہر انداز
ہر ادا فتنۂ مجسم ہے
آنکھ بدلی ہوئی ہے دنیا کی
جب سے تیری نگاہ برہم ہے
میرے ہی دم سے تیری محفل کا
جو بھی ذرہ ہے جان عالم ہے
اپنی تقدیر کی شکایت کیا
آپ کا التفات ہی کم ہے
اپنا سرمایۂ حیات عزیزؔ
دامن تر ہے چشم پر نم ہے
غزل
عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے
عزیز وارثی