EN हिंदी
عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے | شیح شیری
ishq shoala na husn shabnam hai

غزل

عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے

عزیز وارثی

;

عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے
سب طلسم سرشت آدم ہے

اب یہ مایوسیوں کا عالم ہے
فرط راحت بھی شدت غم ہے

آج اس کور دل میں زمانے میں
کون تیری ادا کا محرم ہے

کیوں کرے وہ مسرتوں کی تلاش
جس کی فطرت ہی خوگر غم ہے

اک قیامت ہے تیرا ہر انداز
ہر ادا فتنۂ مجسم ہے

آنکھ بدلی ہوئی ہے دنیا کی
جب سے تیری نگاہ برہم ہے

میرے ہی دم سے تیری محفل کا
جو بھی ذرہ ہے جان عالم ہے

اپنی تقدیر کی شکایت کیا
آپ کا التفات ہی کم ہے

اپنا سرمایۂ حیات عزیزؔ
دامن تر ہے چشم پر نم ہے