عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
ڈالے جیوں کم ظرف مے کے ایک دو پیمانے میں دھوم
شور تب بستی میں تھا اطفال کے پتھراؤ کا
اب دوانے دل نے ڈالا جا کے ویرانے میں دھوم
دل سیہ مست جنوں ہے جب سے یوں ڈالا ہے شور
جیوں ہو فیل مست کی زنجیر کھل جانے میں دھوم
دل میں یوں آتی ہے تیری یاد اے یار عزیز
مصر میں جیوں حضرت یوسف کی تھی آنے میں دھوم
کم نما رہتا ہے تو ہم سے ہلال عید سا
جچ گئی دل میں تری ابرو نظر آنے میں دھوم
عشقؔ کے داغوں نے کی ہے دل کے گلشن میں بہار
ہوگی کیا لالہ کی یاں تشریف فرمانے میں دھوم
غزل
عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
عشق اورنگ آبادی