EN हिंदी
عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم | شیح شیری
ishq se ki ye dil-e-Khaali ne bhar jaane mein dhum

غزل

عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم

عشق اورنگ آبادی

;

عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
ڈالے جیوں کم ظرف مے کے ایک دو پیمانے میں دھوم

شور تب بستی میں تھا اطفال کے پتھراؤ کا
اب دوانے دل نے ڈالا جا کے ویرانے میں دھوم

دل سیہ مست جنوں ہے جب سے یوں ڈالا ہے شور
جیوں ہو فیل مست کی زنجیر کھل جانے میں دھوم

دل میں یوں آتی ہے تیری یاد اے یار عزیز
مصر میں جیوں حضرت یوسف کی تھی آنے میں دھوم

کم نما رہتا ہے تو ہم سے ہلال عید سا
جچ گئی دل میں تری ابرو نظر آنے میں دھوم

عشقؔ کے داغوں نے کی ہے دل کے گلشن میں بہار
ہوگی کیا لالہ کی یاں تشریف فرمانے میں دھوم