EN हिंदी
عشق سے عشق کے انجام کی باتیں ہوں گی | شیح شیری
ishq se ishq ke anjam ki baaten hongi

غزل

عشق سے عشق کے انجام کی باتیں ہوں گی

نور محمد نور

;

عشق سے عشق کے انجام کی باتیں ہوں گی
صبح تک آپ کی پھر شام سے باتیں ہوں گی

دور منزل ہے ہوائیں بھی مخالف سی ہیں
دو گھڑی بیٹھو تو آرام سے باتیں ہوں گی

جس طرح ہوتی ہے رندوں کی خرابات سے بات
اس طرح گردش ایام سے باتیں ہوں گی

ساقیا اب تو عنایت کی نظر ہو جائے
کب تلک مجھ سے تہی جام کی باتیں ہوں گی

ناز کرتے ہیں اگر اپنے خد و خال پہ یہ
آپ کے حسن کی اصنام سے باتیں ہوں گی

انقلاب آئے تو پھر ہمت مرداں کی قسم
وقت کی وقت کے احکام سے باتیں ہوں گی

آؤ کچھ حوصلۂ دل سے بھی لیں کام اے نورؔ
کب تک اب حسرت ناکام سے باتیں ہوں گی