EN हिंदी
عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں | شیح شیری
ishq pagal-pan mein sanjida na ho jae kahin

غزل

عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں

عاطف خان

;

عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں
مجھ کو ڈر ہے تو میرے جیسا نہ ہو جائے کہیں

فصل گل میں ہے شجر کو فکر نے تنہا کیا
فصل گل کے باد وہ تنہا نہ ہو جائے کہیں

تتلیوں سے ہم ریا کاری گلوں کی کہہ تو دیں
ڈر یہی ہے شوخ پھر سادہ نہ ہو جائے کہیں

ہم مداوا اپنے غم کا اس لئے کرتے نہیں
خود مسیحا ہونے کا دعویٰ نہ ہو جائے کہیں