عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں
مجھ کو ڈر ہے تو میرے جیسا نہ ہو جائے کہیں
فصل گل میں ہے شجر کو فکر نے تنہا کیا
فصل گل کے باد وہ تنہا نہ ہو جائے کہیں
تتلیوں سے ہم ریا کاری گلوں کی کہہ تو دیں
ڈر یہی ہے شوخ پھر سادہ نہ ہو جائے کہیں
ہم مداوا اپنے غم کا اس لئے کرتے نہیں
خود مسیحا ہونے کا دعویٰ نہ ہو جائے کہیں
غزل
عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں
عاطف خان