عشق نے جب بھی کسی دل پہ حکومت کی ہے
تو اسے درد کی معراج عنایت کی ہے
اپنی تائید پہ خود عقل بھی حیران ہوئی
دل نے ایسے مرے خوابوں کی حمایت کی ہے
شہر احساس تری یاد سے روشن کر کے
میں نے ہر گھر میں ترے ذکر کی جرأت کی ہے
مجھ کو لگتا ہے کہ انسان ادھورا ہے ابھی
تو نے دنیا میں اسے بھیج کے عجلت کی ہے
شہر کے تیرہ تریں گھر سے وہ خورشید ملا
جس کی تنویر میں تاثیر قیامت کی ہے
سوچتا ہوں کہ میں ایسے میں کدھر کو جاؤں
تیرا ملنا بھی کٹھن، یاد بھی شدت کی ہے
اس طرح اوندھے پڑے ہیں یہ شکستہ جذبے
جیسے اک وہم نے ان سب کی امامت کی ہے
یہ جو بکھری ہوئی لاشیں ہیں ورق پر جوادؔ
یہ مرے ضبط سے لفظوں نے بغاوت کی ہے
غزل
عشق نے جب بھی کسی دل پہ حکومت کی ہے
جواد شیخ