عشق نشہ ہے نہ جادو جو اتر بھی جائے
یہ تو اک سیل بلا ہے سو گزر بھی جائے
تلخیٔ کام و دہن کب سے عذاب جاں ہے
اب تو یہ زہر رگ و پے میں اتر بھی جائے
اب کے جس دشت تمنا میں قدم رکھا ہے
دل تو کیا چیز ہے امکاں ہے کہ سر بھی جائے
ہم بگولوں کی طرح خاک بسر پھرتے ہیں
پاؤں شل ہوں تو یہ آشوب سفر بھی جائے
لٹ چکے عشق میں اک بار تو پھر عشق کرو
کس کو معلوم کہ تقدیر سنور بھی جائے
شہر جاناں سے پرے بھی کئی دنیائیں ہیں
ہے کوئی ایسا مسافر جو ادھر بھی جائے
اس قدر قرب کے بعد ایسے جدا ہو جانا
کوئی کم حوصلہ انساں ہو تو مر بھی جائے
ایک مدت سے مقدر ہے غریب الوطنی
کوئی پردیس میں نا خوش ہو تو گھر بھی جائے
غزل
عشق نشہ ہے نہ جادو جو اتر بھی جائے
احمد فراز