EN हिंदी
عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی | شیح شیری
ishq mein ye hui haalat tere diwane ki

غزل

عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی

عزیز وارثی

;

عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی
اب نہ جینے کی تمنا ہے نہ مر جانے کی

رقص مینا کا کبھی شوخیاں پیمانے کی
یاد آتی ہیں فضائیں ترے میخانے کی

کچھ اس انداز سے ترتیب دیا ہے میں نے
تم سے تشریح نہ ہوگی مرے افسانے کی

میری قسمت ہی میں لکھی تھی تباہی اے دوست
ہے شکایت مجھے اپنے کی نہ بیگانے کی

وہ بھی بیمار محبت کا اڑاتے ہیں مذاق
دیکھ کر جن کو توقع تھی سنبھل جانے کی

کیوں نہ توقیر کریں آج مری اہل حرم
خاک چھانی ہے بہت میں نے صنم خانے کی

ہجر آلام خلش سوز تڑپ درد جگر
سرخیاں ہیں یہ مرے عشق کے افسانے کی