عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی
اب نہ جینے کی تمنا ہے نہ مر جانے کی
رقص مینا کا کبھی شوخیاں پیمانے کی
یاد آتی ہیں فضائیں ترے میخانے کی
کچھ اس انداز سے ترتیب دیا ہے میں نے
تم سے تشریح نہ ہوگی مرے افسانے کی
میری قسمت ہی میں لکھی تھی تباہی اے دوست
ہے شکایت مجھے اپنے کی نہ بیگانے کی
وہ بھی بیمار محبت کا اڑاتے ہیں مذاق
دیکھ کر جن کو توقع تھی سنبھل جانے کی
کیوں نہ توقیر کریں آج مری اہل حرم
خاک چھانی ہے بہت میں نے صنم خانے کی
ہجر آلام خلش سوز تڑپ درد جگر
سرخیاں ہیں یہ مرے عشق کے افسانے کی
غزل
عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی
عزیز وارثی