EN हिंदी
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو | شیح شیری
ishq mein tere koh-e-gham sar pe liya jo ho so ho

غزل

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو

نیاز بریلوی

;

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش‌ و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو

عقل کے مدرسے سے ہو عشق کے مے کدہ میں آ
جام فنا و بے خودی اب تو پیا جو ہو سو ہو

لاگ کی آگ لگ اٹھی پنبہ طرح سا جل گیا
رخت و جود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو

ہجر کی سب مصیبتیں عرض کیں اس کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو

دنیا کے نیک و بد سے کام ہم کو نیازؔ کچھ نہیں
آپ سے جو گزر گیا پھر اسے کیا جو ہو سو ہو