عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
عقل کے مدرسے سے ہو عشق کے مے کدہ میں آ
جام فنا و بے خودی اب تو پیا جو ہو سو ہو
لاگ کی آگ لگ اٹھی پنبہ طرح سا جل گیا
رخت و جود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو
ہجر کی سب مصیبتیں عرض کیں اس کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
دنیا کے نیک و بد سے کام ہم کو نیازؔ کچھ نہیں
آپ سے جو گزر گیا پھر اسے کیا جو ہو سو ہو

غزل
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
نیاز بریلوی