EN हिंदी
عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں | شیح شیری
ishq mein tere jangal bhi ghar lagte hain

غزل

عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں

ذکیہ غزل

;

عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں
کانٹے اور ببول صنوبر لگتے ہیں

بھور بھئے آکاش سے سورج جاگے تو
چاند ستارے کتنے بے گھر لگتے ہیں

چہرے کو چہرے سے ڈھانپے پھرتے لوگ
بولتے ہیں تو لہجے بنجر لگتے ہیں

خوشیوں کے بازار میں غم بھی بکتے ہیں
اور غم کے بازار تو اکثر لگتے ہیں

خون کے رشتے مول بکے بازاروں میں
ماں جائے بھی اب تو پتھر لگتے ہیں