عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں
کانٹے اور ببول صنوبر لگتے ہیں
بھور بھئے آکاش سے سورج جاگے تو
چاند ستارے کتنے بے گھر لگتے ہیں
چہرے کو چہرے سے ڈھانپے پھرتے لوگ
بولتے ہیں تو لہجے بنجر لگتے ہیں
خوشیوں کے بازار میں غم بھی بکتے ہیں
اور غم کے بازار تو اکثر لگتے ہیں
خون کے رشتے مول بکے بازاروں میں
ماں جائے بھی اب تو پتھر لگتے ہیں
غزل
عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں
ذکیہ غزل