EN हिंदी
عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا | شیح شیری
ishq mein mujhko bigaD kar ab sanwarna aa gaya

غزل

عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا

نوح ناروی

;

عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا
ہو گیا ناکام لیکن کام کرنا آ گیا

یہ اگر سچ ہے کہ مجھ کو عشق کرنا آ گیا
تو سمجھ لو روز جینا روز مرنا آ گیا

دعویٰ عشق و وفا پر مجھ کو مرنا آ گیا
کہہ گزرنے کی جگہ اب کر گزرنا آ گیا

ورطۂ دریائے غم نے ایسے غوطے دے دیے
ڈوبنا پھر ڈوب کر مجھ کو ابھرنا آ گیا

چند خوں آلودہ آنسو جذب دامن ہو گئے
پیکر سادہ میں غم کو رنگ بھرنا آ گیا

شیوۂ عشق و وفا میں ہم کو ناکامی سہی
کم سے کم یہ تو ہوا بے موت مرنا آ گیا

شوق سے ظلم و ستم اب روز ڈھاتے جائیے
اہل غم کو غم اٹھا کر غم نہ کرنا آ گیا

کچھ توہم کچھ توقع کچھ الم کچھ انبساط
عشق کر کے مجھ کو جینا اور مرنا آ گیا

کثرت آزار نے تعلیم دے دی ضبط کی
جبر کے باعث سے دل کو صبر کرنا آ گیا

اشک آنکھوں میں پہنچ کر دل میں پھر واپس گئے
یوں سمجھ لے چڑھتے دریا کا اترنا آ گیا

کم سے کم تھا اک طرح کا آسرا اقرار تک
لیکن ان کو صاف اب انکار کرنا آ گیا

رہ گزر سے عشق کی میں آج تک گزرا نہیں
کس طرح کہہ دوں مجھے جی سے گزرنا آ گیا

حسن کی نخوت نے پہنچایا اڑا کر عرش تک
اب تو پریوں کا بھی تم کو پر کترنا آ گیا

بحر ذوق و شوق میں یہ بھی غنیمت جانیے
نوحؔ کو طوفان اٹھا کر غرق کرنا آ گیا