عشق میں کچھ اس طرح دیوانگی چھائی کہ بس
کوچۂ ارباب دل سے یہ صدا آئی کہ بس
جب قدم دیوانگی کی حد سے آگے بڑھ گئے
دیکھنے والوں کو مجھ پر وہ ہنسی آئی کہ بس
بوئے مشکیں مسکرائی پھول خوشبو لے اڑے
اس سراپا ناز کی یوں زلف لہرائی کہ بس
دیکھ کر وہ بانکپن وہ حسن وہ رنگیں شباب
دل کی حسرت نے بھی آخر لی وہ انگڑائی کہ بس
ہم سے کچھ بھی ہو نہ پائی احتیاط دلبری
اپنی کوتاہی پہ ایسی آنکھ شرمائی کہ بس
لے کے ساغر ہاتھ میں ہم چل پڑے جب اے مبینؔ
میکدے میں اک فضا کچھ ایسی لہرائی کہ بس
غزل
عشق میں کچھ اس طرح دیوانگی چھائی کہ بس
سید مبین علوی خیرآبادی