EN हिंदी
عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے | شیح شیری
ishq mein kab ye zaruri hai ki roya jae

غزل

عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے

گوپال متل

;

عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے
یہ نہیں داغ ندامت جسے دھویا جائے

دوپہر ہجر کی تپتی ہوئی سر پر ہے کھڑی
وصل کی رات کو شکوؤں میں نہ کھویا جائے

الجھے اب پنجۂ وحشت نہ گریبانوں سے
آج اسے سینۂ اعدا میں گڑویا جائے

ایک ہی گھونٹ سہی آج تو پی لے زاہد
کچھ نہ کچھ زہد کی خشکی کو سمویا جائے

جتنے بھی داغ رعونت کے ہیں دھل جائیں گے
حوض مے میں تجھے شیخ آج ڈبویا جائے