عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے
یہ نہیں داغ ندامت جسے دھویا جائے
دوپہر ہجر کی تپتی ہوئی سر پر ہے کھڑی
وصل کی رات کو شکوؤں میں نہ کھویا جائے
الجھے اب پنجۂ وحشت نہ گریبانوں سے
آج اسے سینۂ اعدا میں گڑویا جائے
ایک ہی گھونٹ سہی آج تو پی لے زاہد
کچھ نہ کچھ زہد کی خشکی کو سمویا جائے
جتنے بھی داغ رعونت کے ہیں دھل جائیں گے
حوض مے میں تجھے شیخ آج ڈبویا جائے
غزل
عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے
گوپال متل