عشق میں اضطراب رہتا ہے
جی نہایت خراب رہتا ہے
خواب سا کچھ خیال ہے لیکن
جان پر اک عذاب رہتا ہے
تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے
سامنے اک سراب رہتا ہے
مرحمت کا تری شمار نہیں
درد بھی بے حساب رہتا ہے
تیری باتوں پہ کون لائے دلیل
دل ہے سو لا جواب رہتا ہے

غزل
عشق میں اضطراب رہتا ہے
صدیق احمد نظامی