EN हिंदी
عشق میں اضطراب رہتا ہے | شیح شیری
ishq mein iztirab rahta hai

غزل

عشق میں اضطراب رہتا ہے

صدیق احمد نظامی

;

عشق میں اضطراب رہتا ہے
جی نہایت خراب رہتا ہے

خواب سا کچھ خیال ہے لیکن
جان پر اک عذاب رہتا ہے

تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے
سامنے اک سراب رہتا ہے

مرحمت کا تری شمار نہیں
درد بھی بے حساب رہتا ہے

تیری باتوں پہ کون لائے دلیل
دل ہے سو لا جواب رہتا ہے