EN हिंदी
عشق میں ہجر کے صدمے بھی اٹھائے نہیں ہیں | شیح شیری
ishq mein hijr ke sadme bhi uThae nahin hain

غزل

عشق میں ہجر کے صدمے بھی اٹھائے نہیں ہیں

اسعد بدایونی

;

عشق میں ہجر کے صدمے بھی اٹھائے نہیں ہیں
اپنی مرضی سے تو ہم دشت میں آئے نہیں ہیں

اپنا کاسہ بھی تہی اپنا کدو بھی خالی
داغ دیدار و ہوس دل پہ لگائے نہیں ہیں

ہم سے مایوس نہ ہو شمع شبستان خیال
ہم ابھی خاک کے سینے میں سمائے نہیں ہیں

اب کسی سمت سے خوشبو نہیں آتی ہم تک
کاغذی پھول بھی طاقوں میں سجائے نہیں ہیں

اک دکاں کھول کے بازار کا رخ دیکھنا ہے
ابھی آئین تجارت کے بنائے نہیں ہیں

حرمت حرف کی تفسیر بنانے والو
ہم کسی اور ستارے سے تو آئے نہیں ہیں