عشق میں ہر نفس عبادت ہے
مذہب عشق آدمیت ہے
اک زمانہ رقیب ہے میرا
جب سے حاصل تری رفاقت ہے
زندگی نام رنج و غم ہی سہی
پھر بھی کس درجہ خوب صورت ہے
اک محبت بھری نظر کے سوا
اور کیا اہل دل کی قیمت ہے
چند مخلص جہاں اکٹھا ہوں
وہ جگہ اہل دل کی جنت ہے
کون سلجھائے گیسوئے دوراں
اپنی الجھن سے کس کو فرصت ہے
ایک دنیا تباہ کر ڈالے
ایک ذرہ میں ایسی طاقت ہے
ستم دوست ہو کہ لطف دوست
جو بھی مل جائے وہ غنیمت ہے
ان کو دیکھیں گے بے حجاب حفیظؔ
شوق دیدار اگر سلامت ہے
غزل
عشق میں ہر نفس عبادت ہے
حفیظ بنارسی