عشق کو پاس وفا آج بھی کرتے دیکھا
ایک پتھر کے لیے جی سے گزرتے دیکھا
پست غاروں کے اندھیروں میں جو لے جاتی ہیں
وہ اڑانیں بھی تو انسان کو بھرتے دیکھا
جبھی لائی ہے صبا موسم گل کی آہٹ
برگ افسردہ ہوئے شاخوں کو ڈرتے دیکھا
تری دہلیز پہ گردش کا گزر کیا معنی
تجھ کو جب دیکھا ہے کچھ بنتے سنورتے دیکھا
بے صدا ہی سہی پر سنگ صفت ہیں لمحے
ان کی آغوش میں ہر شے کو بکھرتے دیکھا
جو بھی بیتی سر فرہاد پہ بیتی نجمیؔ
کسی پرویزؔ کو تیشے سے نہ مرتے دیکھا
غزل
عشق کو پاس وفا آج بھی کرتے دیکھا
حسن نجمی سکندرپوری