عشق کو اپنے لیے سمجھا اثاثہ دل کا
اور اس دل نے بنا ڈالا تماشا دل کا
بعد تیرے کوئی نظروں میں سمایا ہی نہیں
اب صدا دیتا نہیں خالی یہ کاسہ دل کا
ایک طوفان ہے روکے سے نہیں جو رکتا
موج نے توڑ دیا ہو نہ کنارا دل کا
دو گھڑی چین سے جینے نہیں دیتا ناداں
جان پاتے ہی نہیں کیا ہے ارادہ دل کا
وہ پلٹ آئے کبھی اور اسے میں نہ ملوں
لے ہی ڈوبے گا کسی روز یہ دھڑکا دل کا
چاہتیں بانٹی ہیں دنیا کو محبت دی ہے
میں نے کب یوں ہی سنبھالا ہے خزانہ دل کا
درمیاں عشق کے دیوار کھڑی ہے شہنازؔ
عقل پہ کیسا لگا آج یہ پہرہ دل کا

غزل
عشق کو اپنے لیے سمجھا اثاثہ دل کا
شہناز مزمل