عشق کی ساری باتیں اے دل پاگل پن کی باتیں ہیں
زلف سیہ کے سائے میں بھی دار و رسن کی باتیں ہیں
ویرانوں میں جا کے دیکھو کیسے کیسے پھول کھلے ہیں
دیوانوں کے ہونٹوں پر اب سرو و سمن کی باتیں ہیں
کل تک اپنے خون کے آنسو مٹی میں مل جاتے تھے
آج اسی مٹی سے پیدا نظم چمن کی باتیں ہیں
ٹھوکر کھاتے پھرتے ہیں اک صبح یہاں اک شام وہاں
آوارہ کی ساری باتیں کوہ و دمن کی باتیں ہیں
دیکھیں کب کرنیں ابھریں گی دیکھیں کب تارے ڈوبیں گے
ہجر کی شب میں اب تک یارو صبح وطن کی باتیں ہیں
غزل
عشق کی ساری باتیں اے دل پاگل پن کی باتیں ہیں
باقر مہدی