عشق کی دنیا میں کیا کیا ہم کو سوغاتیں ملیں
سونی صبحیں روتی شامیں جاگتی راتیں ملیں
یا برستی دھوپ میں تپتے سلگتے دن ملے
یا ردائے درد میں لپٹی ہوئی راتیں ملیں
کچھ صباحت کچھ ملاحت تھی نصیب عاشقاں
آنسوؤں کے رنگ میں نمکین برساتیں ملیں
گہ اجڑ جانے کا ماتم گہ بچھڑ جانے کا شور
دل کے اندر جب ملیں نوحوں کی باراتیں ملیں
کھوکھلے چہروں پہ سیم و زر کی تھیں آرائشیں
اہل معنی کو مگر لفظوں کی خیراتیں ملیں
کھیلنے والے تو بس دس بیس شطرنجی رہے
دیکھنے والوں کو شہ ماتوں پہ شہ ماتیں ملیں
زلزلے آئے تو جو پیکر تھے سنگ و خشت کے
ان کے ہونٹوں پر دعائیں اور مناجاتیں ملیں
عشق کو فکر و شعور زندگی درکار تھا
اور اسے نا پختہ ذہنوں کی کراماتیں ملیں
ہم انہی کو شعر کا قالب عطا کرتے رہے
بے صدا ہونٹوں پہ جو بکھری ہوئی باتیں ملیں
کس طرح کہتے کرمؔ دنیا سے اپنے دل کا حال
دوستوں سے بھی ادھوری سی ملاقاتیں ملیں
غزل
عشق کی دنیا میں کیا کیا ہم کو سوغاتیں ملیں
کرم حیدرآبادی