EN हिंदी
عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں | شیح شیری
ishq ki chausar kis ne kheli ye to khel hamare hain

غزل

عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں

مبارک عظیم آبادی

;

عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں
دل کی بازی مات ہوئی تو جان کی بازی ہارے ہیں

کیسے کیسے لخت جگر ہیں کیا کیا دل کے پارے ہیں
ایسے لعل کہاں دنیا میں جیسے لعل ہمارے ہیں

اس کو مارا اس کو مارا یہ بسمل وہ ٹوٹ گیا
نوک پلک والوں سے ڈریے قاتل ان کے اشارے ہیں

چھلنی چھلنی دل بھی جگر بھی روزن روزن سینہ بھی
ایک نگاہ ناز نے تیری تیر ہزاروں مارے ہیں

پھونک رہا ہے سوز نہانی کون اس آگ پہ ڈالے پانی
دل کی لگی نے آگ لگا دی داغ نہیں انگارے ہیں

لالہ رخوں میں عمر گزاری دیکھی ان کی فصل بہار
آج بھی گل سے گالوں والے مجھ کو مبارکؔ پیارے ہیں