عشق کے جاں نثار جیتے ہیں
بعد مرنے کے یار جیتے ہیں
زہر حسرت چشیدگان فراق
ہیں موؤں میں ہزار جیتے ہیں
دشمنوں پر تو تیغ یار نہ کھینچ
ابھی تو دوست دار جیتے ہیں
تو جہاں جائے مثل آب حیات
مردے اب ایک بار جیتے ہیں
ایک دن داؤ ہے ہمارا بھی
یہاں بازی تو یار جیتے ہیں
بن اجل کوئی مر نہیں سکتا
جی کو ہم مار مار جیتے ہیں
غم ہجراں کی کچھ نہیں پوچھ رضاؔ
شکر پروردگار جیتے ہیں

غزل
عشق کے جاں نثار جیتے ہیں
رضا عظیم آبادی