عشق کرتا کہ ترے ہجر سے نفرت کرتا
بول کس آس پہ میں تیری حمایت کرتا
زندگی روز نیا روپ دکھاتی مجھ کو
اور میں ہنس کے اسے خواب ودیعت کرتا
میں کہ اک اسم محبت ہوں فلک سے اترا
میں ترے ورد میں رہتا تو کرامت کرتا
دشت کے پار نیا دشت بساتا دل کا
پھر ترے ہجر میں دل کھول کے وحشت کرتا
حلقۂ نیند کے منظر میں اداسی تھی سعیدؔ
میں وہاں خواب سناتا تو قیامت کرتا

غزل
عشق کرتا کہ ترے ہجر سے نفرت کرتا
مبشر سعید