عشق کا راز نہ کیوں دل سے نمایاں ہو جائے
کاش یہ بھی کسی ناکام کا ارماں ہو جائے
نہیں امید کہ وہ حشر بداماں ہو جائے
ایسا دیوانہ جو خود داخل زنداں ہو جائے
درد قابو کا نہیں کاش وہ اٹھ کر شب غم
سرگزشت دل ناشاد کا عنواں ہو جائے
نہ تسلی نہ دلاسا نہ کہیں نام کو صبر
حیف اس دل پہ کہ یوں بے سر و ساماں ہو جائے
غنچے چٹکیں کہ کھلیں پھول بڑھے جوش نمو
حسن پنہاں کسی عنواں سے نمایاں ہو جائے

غزل
عشق کا راز نہ کیوں دل سے نمایاں ہو جائے
پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق