عشق جو معراج کا اک زینہ ہے
یہ ہمارا مذہب پارینہ ہے
اب تو خود بینی عبادت ہو گئی
رات دن پیش نظر آئینہ ہے
واعظ اب بھی جرم ہے کیا مے کشی
چاندنی ہے اور شب آدینہ ہے
جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس
دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
سر بہ مہر داغ کرتے ہیں عزیزؔ
دل ہمارا عشق کا گنجینہ ہے

غزل
عشق جو معراج کا اک زینہ ہے
عزیز لکھنوی