EN हिंदी
عشق جو معراج کا اک زینہ ہے | شیح شیری
ishq jo mearaj ka ek zina hai

غزل

عشق جو معراج کا اک زینہ ہے

عزیز لکھنوی

;

عشق جو معراج کا اک زینہ ہے
یہ ہمارا مذہب پارینہ ہے

اب تو خود بینی عبادت ہو گئی
رات دن پیش نظر آئینہ ہے

واعظ اب بھی جرم ہے کیا مے کشی
چاندنی ہے اور شب آدینہ ہے

جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس
دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے

سر بہ مہر داغ کرتے ہیں عزیزؔ
دل ہمارا عشق کا گنجینہ ہے