عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی
ہجر اک مسافت ہے بے نگار صحرا کی
ان کے روبرو نکلے نطق و لفظ بے معنی
بات ہی عجب لیکن خامشی نے پیدا کی
وقت کے تسلسل میں ہم بہ رنگ شعلہ تھے
عمر یک نفس میں بھی روشنی تھے دنیا کی
ہم کو سہل انگاری غرق کر چکی ہوتی
ہمت آفریں نکلی لہر لہر دریا کی
یوں تو وہ فروکش تھے جادۂ رگ جاں میں
ماورائے امکاں تھی روشنی کف پا کی
شمع محفل یک شب اور طول فکر اتنا
کون شخص تھا جس نے آرزوئے فردا کی
ہم بھی ہیں نکو صورت ہم بھی نیک سیرت ہیں
ہم نے بندگی کی ہے اک جمال رعنا کی
غزل
عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی
ظہیر کاشمیری