عشق ہوں تو شمع حسن یار کا پروانہ ہوں
حسن ہوں تو میں چراغ کعبہ و بت خانہ ہوں
میری ہستی کار فرما ہے جہاں تک دیکھیے
رند ہوں میں جام ہوں میں ساقئ مے خانہ ہوں
کوئی دیوانہ مجھے کہتا ہے سودائی کوئی
واقعہ یہ ہے کہ محو جلوۂ جانانہ ہوں
میں ہوں ان کی ابتدا اور وہ ہیں میری انتہا
ختم ہو جو حسن پر وہ عشق کا افسانہ ہوں
ہاں جلا دے خاک کر دے پھونک دے ہستی مری
تو تو شمع حسن ہے میں تو ترا پروانہ ہوں
تم ہو عالم تم سے ہے عالم مگر با ایں ہمہ
تم ہو عالم آشنا میں تم سے بھی بیگانہ ہوں
میں حدود شرع سے باہر نہیں بسملؔ مگر
کہنے دو جو کچھ کہوں دیوانہ ہوں دیوانہ ہوں
غزل
عشق ہوں تو شمع حسن یار کا پروانہ ہوں
بسمل سعیدی