عشق ہی عشق ہو عاشق ہو نہ معشوق جہاں
ایسی اک درگہ توحید مآب اور بھی ہے
ہوش سے کاٹ یہ دن زندہ دلی سے رکھ کام
شیب کے بعد مری جان شباب اور بھی ہے
یار مے خانے اگر کر گئے خالی غم کیا
اب بھی ابر آتا ہے اور خم میں شراب اور بھی ہے
گھر کیا غالبؔ و مومنؔ نے جہاں آنکھوں میں
اسی بستی میں کوئی خانہ خراب اور بھی ہے
غزل
عشق ہی عشق ہو عاشق ہو نہ معشوق جہاں (ردیف .. ے)
دتا تریہ کیفی