EN हिंदी
عشق ہے غم جو سکھاتا ہے فنا ہو جانا | شیح شیری
ishq hai gham jo sikhata hai fana ho jaana

غزل

عشق ہے غم جو سکھاتا ہے فنا ہو جانا

مانی جائسی

;

عشق ہے غم جو سکھاتا ہے فنا ہو جانا
درد دل ہے جسے آتا ہے دوا ہو جانا

درس ہمت ہے نئے رہرو الفت کے لئے
کانٹے پانا تو مرا برہنہ پا ہو جانا

عشق پیارا ہے تو نعمت ہے غم مہجوری
ان کا ملنا ہے محبت کا جدا ہو جانا

ہوش لا حاصلیٔ شکوۂ ناکامی ہے
بے خودی میں مرا راضی بہ رضا ہو جانا

اے پشیمان ستم جا کہ جہاں دیکھ چکا
میرا مرنا ترے وعدے کا وفا ہو جانا

وصل جاناں کی تمنا ہے تو مٹ جا پہلے
یوں میسر نہیں بندے کو خدا ہو جانا

سانس گنتا ہوں تمنا میں کہ دیکھوں مانیؔ
غم دل کا ادب آموز فنا ہو جانا