عشق دشوار نہیں خوش نظری مشکل ہے
سہل ہے کوہ کنی شیشہ گری مشکل ہے
اس میں شامل ہے مرا حسن طلب بھی اے دوست
ورنہ اس حسن سے بیداد گری مشکل ہے
لگ گئی دامن گیسوئے پریشاں کی ہوا
ہوش میں آئے نسیم سحری مشکل ہے
مسند لالہ و ریحاں ہو کہ ہو تختۂ دار
ہم نشیں چارۂ آشفتہ سری مشکل ہے
یہ حقیقت کوئی ارباب خبر سے پوچھے
کس قدر مرحلۂ بے خبری مشکل ہے
دل بیدار کا اب اور ہی عالم ہے روشؔ
لب تک آ جائے فغان سحری مشکل ہے
غزل
عشق دشوار نہیں خوش نظری مشکل ہے
روش صدیقی