عشق اور اتنا مہذب چھوڑ کر دیوانہ پن
بند اوپر سے تلے تک شیروانی کے بٹن
عشق کی دیوانگی وضع جنوں کے ساتھ تھی
چاک دل بھی سل گیا جب سے سیا ہے پیرہن
دل کو مژدہ ہو کہ وہ بھی خیر سے جاتی رہی
آہ سے پہلے جو کچھ محسوس ہوتی تھی دکھن
ان کو جلوت کی ہوس محفل میں تنہا کر گئی
جو کبھی ہوتے تھے اپنی ذات سے اک انجمن
شاخ گل بن کر لچکتے ہیں ہوس کی بزم میں
یہ وہی ہیں جن میں تھا تلوار کا سا بانکپن
خوش نما لفظوں کی رشوت دے کے راضی کیجیے
روح کی توہین پر آمادہ رہتا ہے بدن
مرگ شہر آرزو کا کر چکے ماتم سلیمؔ
آؤ ان لاشوں کو اب لفظوں کا پہنائیں کفن
غزل
عشق اور اتنا مہذب چھوڑ کر دیوانہ پن
سلیم احمد