EN हिंदी
عشق اپنا عجب تماشہ ہے | شیح شیری
ishq apna ajab tamasha hai

غزل

عشق اپنا عجب تماشہ ہے

عظیم قریشی

;

عشق اپنا عجب تماشہ ہے
اک جہاں ہے کہ ہم کو تکتا ہے

جیسے بے ماں کے طفل ہو یہ دل
آج کچھ اس طرح سے سہما ہے

تجھ کو پا کر بھی شاد کب تھا دل
تجھ کو کھو کر بھی ہاتھ ملتا ہے

آؤ اس دیس میں چلیں جس جا
عشق تپتا ہے روپ جلتا ہے

ایک ہی روپ کے ہیولے ہیں
گاہ سفیوؔ ہے گاہ میراؔ ہے

کتنا نازک ہے آبگینۂ دل
غنچہ چٹکے تو اور دکھتا ہے

بے خطر ہے عظیمؔ ہر غم سے
اس پہ آل نبی کا سایا ہے