عشق اپنا عجب تماشہ ہے
اک جہاں ہے کہ ہم کو تکتا ہے
جیسے بے ماں کے طفل ہو یہ دل
آج کچھ اس طرح سے سہما ہے
تجھ کو پا کر بھی شاد کب تھا دل
تجھ کو کھو کر بھی ہاتھ ملتا ہے
آؤ اس دیس میں چلیں جس جا
عشق تپتا ہے روپ جلتا ہے
ایک ہی روپ کے ہیولے ہیں
گاہ سفیوؔ ہے گاہ میراؔ ہے
کتنا نازک ہے آبگینۂ دل
غنچہ چٹکے تو اور دکھتا ہے
بے خطر ہے عظیمؔ ہر غم سے
اس پہ آل نبی کا سایا ہے
غزل
عشق اپنا عجب تماشہ ہے
عظیم قریشی