عشق عہد بے وفا میں بے نوا ہو جائے گا
آنکھ استنبول سینہ قرطبہ ہو جائے گا
رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو
بات چل نکلی تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا
ان بھری گلیوں میں پھرتا رہ اسی میں خیر ہے
اپنے اندر جا چھپا تو لاپتا ہو جائے گا
سر بریدہ لفظ مجھ سے رات یہ کہنے لگے
اب نہ بولو گے تو کاغذ کربلا ہو جائے گا
وہ مری آواز کا قاتل بھی ہے مقتول بھی
اس کا میرا آج کل میں فیصلہ ہو جائے گا
پھر خدائی کا کیا دعویٰ کسی فرعون نے
پھر سر دربار کوئی معجزہ ہو جائے گا
غزل
عشق عہد بے وفا میں بے نوا ہو جائے گا
غلام نبی اعوان