عشق اب میری جان ہے گویا
جان اب میہمان ہے گویا
جس کو دیکھو وہی ہے گرم تلاش
کہیں اس کا نشان ہے گویا
ہے قیامت اٹھان ظالم کی
وہ ابھی سے جوان ہے گویا
مانگے جائیں گے تجھ کو ہم تجھ سے
منہ میں جب تک زبان ہے گویا
جی بہلنے کو لوگ سنتے ہیں
درد دل داستان ہے گویا
دل میں کیسے وہ بے تکلف ہیں
ان کا اپنا مکان ہے گویا
ہائے اس عالم آشنا کی نظر
ہر نظر میں جہان ہے گویا
اچھے اچھوں کو پھانس رکھا ہے
زال دنیا جوان ہے گویا
اس سخن کا جلیلؔ کیا کہنا
مصحفیؔ کی زبان ہے گویا
غزل
عشق اب میری جان ہے گویا
جلیلؔ مانک پوری