EN हिंदी
عشق اب میری جان ہے گویا | شیح شیری
ishq ab meri jaan hai goya

غزل

عشق اب میری جان ہے گویا

جلیلؔ مانک پوری

;

عشق اب میری جان ہے گویا
جان اب میہمان ہے گویا

سوز دل کہہ رہی ہے محفل میں
شمع میری زبان ہے گویا

جس کو دیکھو وہی ہے گرم تلاش
کہیں اس کا نشان ہے گویا

ہے قیامت اٹھان ظالم کی
وہ ابھی سے جوان ہے گویا

چھینے لیتی ہے دل تری تصویر
وہ ادا ہے کہ جان ہے گویا

ایک دل اس میں لاکھ زخم فراق
ٹوٹا پھوٹا مکان ہے گویا

مانگے جائیں گے تجھ کو ہم تجھ سے
منہ میں جب تک زبان ہے گویا

جی بہلنے کو لوگ سنتے ہیں
درد دل داستان ہے گویا

آدمی وقف کار دنیا ہے
میہماں میزبان ہے گویا

تیری کس بات کا بھروسہ ہو
تیری ہر بات جان ہے گویا

دل میں کیسے وہ بے تکلف ہیں
ان کا اپنا مکان ہے گویا

ہائے اس عالم آشنا کی نظر
ہر نظر میں جہان ہے گویا

اچھے اچھوں کو پھانس رکھا ہے
زال دنیا جوان ہے گویا

چپ رہوں میں تو سب کھٹکتے ہیں
بے زبانی زبان ہے گویا

بے وفائی پہ مرتے ہیں معشوق
دل ربائی کی شان ہے گویا

کوئی اس پر نگاہ کیا ڈالے
تمکنت پاسبان ہے گویا

تیری صورت تو کہتی ہے قاتل
خود ترا امتحان ہے گویا

خوبرویان ماہ پیکر سے
یہ زمیں آسمان ہے گویا

آج ہے دید کی اجازت عام
موت کا امتحان ہے گویا

وار پر وار کرتے جاتے ہیں
کچھ ابھی مجھ میں جان ہے گویا

اس سخن کا جلیلؔ کیا کہنا
مصحفیؔ کی زبان ہے گویا