عشق آزار کر دیا جائے
غم کو بیدار کر دیا جائے
کر لو آباد ہجر یاراں کو
گھر کا مختار کر دیا جائے
ٹھوکریں کچھ بھلے ادھر کی لگیں
ہم کو اس پار کر دیا جائے
کوئی مٹی کے دام دینے لگے
صاف انکار کر دیا جائے
آؤ نکلیں جنوں کے سائے میں
گھر کو مسمار کر دیا جائے
ایسے کچھ رہنما میسر ہوں
نیک کردار کر دیا جائے
غزل
عشق آزار کر دیا جائے
حسان احمد اعوان