EN हिंदी
اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے | شیح شیری
ishaare kya nigah-e-naz-e-dil-ruba ke chale

غزل

اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے

میر انیس

;

اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے

پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے

مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے

مقام یوں ہوا اس کارگاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے

کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے