اس وسعت کلام سے جی تنگ آ گیا
ناصح تو میری جان نہ لے دل گیا گیا
ضد سے وہ پھر رقیب کے گھر میں چلا گیا
اے رشک میری جان گئی تیرا کیا گیا
یہ ضعف ہے تو دم سے بھی کب تک چلا گیا
خود رفتگی کے صدمے سے مجھ کو غش آ گیا
کیا پوچھتا ہے تلخی الفت میں پند کو
ایسی تو لذتیں ہیں کہ تو جان کھا گیا
کچھ آنکھ بند ہوتے ہی آنکھیں سی کھل گئیں
جی اک بلائے جان تھا اچھا ہوا گیا
آنکھیں جو ڈھونڈتی تھیں نگہ ہائے التفات
گم ہونا دل کا وہ مری نظروں سے پا گیا
بوئے سمن سے شاد تھے اغیار بے تمیز
اس گل کو اعتبار نسیم و صبا گیا
آہ سحر ہماری فلک سے پھری نہ ہو
کیسی ہوا چلی یہ کہ جی سنسنا گیا
آتی نہیں بلائے شب غم نگاہ میں
کس مہروش کا جلوہ نظر میں سما گیا
اے جذب دل نہ تھم کہ نہ ٹھہرا وہ شعلہ رو
آیا تو گرم گرم ولیکن جلا گیا
مجھ خانماں خراب کا لکھا کہ جان کر
وہ نامہ غیر کا مرے گھر میں گرا گیا
مہندی ملے گا پانوں سے دشمن تو آن کر
کیوں میرے تفتہ سینے کو ٹھوکر لگا گیا
بوسہ صنم کی آنکھ کا لیتے ہی جان دی
مومنؔ کو یاد کیا حجر الاسود آ گیا
غزل
اس وسعت کلام سے جی تنگ آ گیا
مومن خاں مومن