اس وقت اپنے تیور پورے شباب پر ہیں
سارے جہاں سے کہہ دو ہم انقلاب پر ہیں
ہم کو ہماری نیندیں اب چھو نہیں سکیں گی
جس تک نہ نیند پہنچے اس ایک خواب پر ہیں
ان قاتلوں کے چہرے اب تو اگھاریے گا
تازہ لہو کے دھبے جن کے نقاب پر ہیں
اپنی لڑائی ہے تو کیول اسی محل سے
اپنے لہو کی بوندیں جس کے گلاب پر ہیں
کیسے مٹا سکے گا ہم کو کنورؔ زمانہ
ہم دستخط سمے کے دل کی کتاب پر ہیں
غزل
اس وقت اپنے تیور پورے شباب پر ہیں
کنور بے چین

