اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں
یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں
تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں
اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا
یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں
اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں
ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں
محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں
طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو
منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی
معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں
اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر
کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں
زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو
مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں
اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے
دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ
سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں
کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی
مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں
اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر
بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے
وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں
اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا
کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں
غزل
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
نظم طبا طبائی