اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
اس دل سے اور عقل سے ووہیں بگڑ گئی
کیا کہئے تیرے ہاتھوں سے اے دست برد عشق
اس دل کی بستی بات کے کہتے اجڑ گئی
تیرا تو قول تھا کہ نہ ہووے گی یہ تمام
اے ساقی دو ہی گھونٹ میں بس مے نبڑ گئی
ؔجوشش لکھا میں اس کو سفینے پر اس طرح
گویا کہ بھولی تھی یہ غزل یاد پڑ گئی

غزل
اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
جوشش عظیم آبادی