EN हिंदी
اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی | شیح شیری
is tund-KHu se junhi meri aankh laD gai

غزل

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی

جوشش عظیم آبادی

;

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
اس دل سے اور عقل سے ووہیں بگڑ گئی

کیا کہئے تیرے ہاتھوں سے اے دست برد عشق
اس دل کی بستی بات کے کہتے اجڑ گئی

تیرا تو قول تھا کہ نہ ہووے گی یہ تمام
اے ساقی دو ہی گھونٹ میں بس مے نبڑ گئی

ؔجوشش لکھا میں اس کو سفینے پر اس طرح
گویا کہ بھولی تھی یہ غزل یاد پڑ گئی