EN हिंदी
اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے | شیح شیری
is tarah se kashti bhi koi par lage hai

غزل

اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے

وامق جونپوری

;

اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے
کاغذ کا بنا ہاتھ میں پتوار لگے ہے

آزاد لگے ہے نہ گرفتار لگے ہے
دیوانے کو در آہنی دیوار لگے ہے

اک لاش ہے لیکن بڑی جاں دار لگے ہے
شعلہ سی کوئی چیز سر دار لگے ہے

پہچان لو اس کو وہی قاتل ہے ہمارا
جس ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار لگے ہے

خاموش گراں بار فضاؤں میں گھٹن سی
یہ تو کسی طوفان کی للکار لگے ہے

اک وقت وہ تھا جب رسن و دار میں تھا لطف
اب لطف بھی ان کا رسن و دار لگے ہے

دن چڑھنے لگا تیزی سے گھٹنے لگے سائے
راہی کوئی ہم کو پس دیوار لگے ہے

اک دائرۂ فکر میں محدود ہے عالم
ہر پائے نظر صورت پرکار لگے ہے

سننے میں تو غزلیں بہت اچھی لگیں وامقؔ
قرطاس پہ اک ایسی جو شہکار لگے ہے