EN हिंदी
اس طرح ستایا ہے پریشان کیا ہے | شیح شیری
is tarah sataya hai pareshan kiya hai

غزل

اس طرح ستایا ہے پریشان کیا ہے

افضال فردوس

;

اس طرح ستایا ہے پریشان کیا ہے
گویا کہ محبت نہیں احسان کیا ہے

تجھ کو ہی نہیں مجھ کو بھی حیران کیا ہے
اس دل نے بڑا ہم کو پریشان کیا ہے

سوچا تھا کہ تم دوسروں جیسے نہیں ہو گے
تم نے بھی وہی کام مری جان کیا ہے

ہر روز سجاتے ہیں تری یاد کے غنچے
آنکھوں کو ترے ہجر میں گلدان کیا ہے

مشکل تھا بہت میرے لیے ترک تعلق
یہ کام بھی تم نے مرا آسان کیا ہے

یہ دل کا نگر ایسے تو ویران تھا کب سے
لا ریب اسے آپ نے سنسان کیا ہے

یہ عزت و ناموس سبھی اس کی عطا ہے
وہ جس نے گڑریے کو بھی سلطان کیا ہے