اس طرح مل کہ ملاقات ادھوری نہ رہے
زندگی دیکھ کوئی بات ادھوری نہ رہے
بادلوں کی طرح آئے ہو تو کھل کر برسو
دیکھو اس بار کی برسات ادھوری نہ رہے
میرا ہر اشک چلا آیا براتی بن کر
جس سے یہ درد کی بارات ادھوری نہ رہے
پاس آ جانا اگر چاند کبھی چھپ جائے
میرے جیون کی کوئی رات ادھوری نہ رہے
میری کوشش ہے کہ میں اس سے کچھ ایسے بولوں
لفظ نکلے نہ کوئی بات ادھوری نہ رہے
تجھ پہ دل ہے تو کنورؔ دے دے کسی کے دل کو
جس سے دل کی بھی یہ سوغات ادھوری نہ رہے
غزل
اس طرح مل کہ ملاقات ادھوری نہ رہے
کنور بے چین