اس طرح مہ رخوں کو پشیماں کریں گے ہم
اب داغ داغ دل کا نمایاں کریں گے ہم
آئینہ بن کے جائیں گے بزم جمال میں
محفل کے رو بہ رو انہیں حیراں کریں گے ہم
آئے تو وہ بہار دل و جاں نگاہ میں
اک اک نفس کو رشک گلستاں کریں گے ہم
اس بت کو اپنے دل میں بسانے سے پیشتر
پیمائش حرارت ایماں کریں گے ہم
مل جائے ان کا نقش کف پا اگر کہیں
اک اک لکیر جزو رگ جاں کریں گے ہم
احسان وصل یار بھی منظور ہے مگر
آزار ہجر یار کے ارماں کریں گے ہم
اخگرؔ کسی کی یاد میں لازم ہے ایک جشن
خون جگر سے خاطر مژگاں کریں گے ہم

غزل
اس طرح مہ رخوں کو پشیماں کریں گے ہم
حنیف اخگر