EN हिंदी
اس طرح دنیا میں دل کو محرم غم کیجیے | شیح شیری
is tarah duniya mein dil ko mahram-e-gham kijiye

غزل

اس طرح دنیا میں دل کو محرم غم کیجیے

بسمل سعیدی

;

اس طرح دنیا میں دل کو محرم غم کیجیے
جب خوشی کوئی میسر ہو تو ماتم کیجیے

عشق سے پھر سلسلہ جنبانی غم کیجیے
زندگی پر موت کو پہلے مقدم کیجیے

حسن کی جانب نگاہ شوق یا کم کیجیے
یا نگاہ شوق کو اک عہد محکم کیجیے

موت کا کیا موت کا تو سو طرح غم کیجیے
زندگی ناشاد کا کس طرح ماتم کیجیے

دیکھ کر اہل طرب کا ساز و سامان طرب
بد نصیبوں کا ذرا اندازۂ غم کیجیے

جانے کس عالم کی حسرت میں ہیں نظریں مضطرب
ورنہ کیا نظارۂ حسن دو عالم کیجیے

اب جنوں کی سرحدوں سے آ ملا ہے جوش عشق
کچھ سمجھ کر اب نگاہ حسن برہم کیجیے

اہل عشرت اپنی بزم عیش و عشرت کے قریب
احتیاطاً منعقد اک بزم ماتم کیجیے

آنسوؤں کا پونچھنے والا ہی جب کوئی نہ ہو
آہ کس امید پر آنکھوں کو پر نم کیجیے

غم کو ہونے دیجیے ہو جس قدر مانوس دل
دل کو جتنا ہو سکے بیگانۂ غم کیجیے

پھر قفس سے لوٹ کر آئے چمن میں پھر وہی
آشیاں کے واسطے تنکے فراہم کیجیے

ہیں نگاہوں کی حدوں سے دور ابھی بیباکیاں
شوخ چتون سے غرور حسن کو کم کیجیے

تا کجا آوارۂ نظارہ چشم حسن دوست
جمع اک مرکز پہ کیوں کر حسن عالم کیجیے

ہر خوشی نے اس نتیجے پر ہمیں پہنچا دیا
جب خوشی کوئی میسر ہو تو ماتم کیجیے

آرزو سے بڑھ کے دشمن کوئی انساں کا نہیں
جس قدر ممکن ہو بسملؔ آرزو کم کیجیے